نتیجہ فکر: مہدی باقر خان
لطف کی تیری اگر مجھ پہ نظر ہو جائے
ایک پل میں کئی صدیوں کا سفر ہو جائے
بن ترے موسم ِ گل پر ہے خزاں کا سایہ
بن ترے برسے تو شبنم بھی شرر ہو جائے
یوں کریں لوگ سمجھ لیں ترا دیوانہ ہوں
عشق ایسا ہو کہ دنیا کو خبر ہو جائے
تم جو نظروں سے ہو اوجھل تو جہاں بے رونق
"رخ سے زلفیں جو ہٹادو تو سحر ہو جائے"
یہ مری آنکھ سے گرتا ہوا بے رنگ آنسو
گر تری یاد میں ٹپکے تو گہر ہو جائے
اب فقط ایک تمنا ہے شب و روز مری
میں سراپا ہوں دعا اور تو اثر ہو جائے
عیسی ِ وقت بنے خضر ِ زماں کہلائے
تیرے پہلو میں اگر زیست بسر ہو جائے
تجھ سے جس قوم کو نسبت ہو بھری دنیا میں
وہ کسی سے نہ ڈرے ایسی نڈر ہو جائے
تیری الفت کی قسم کھا کے جو لشکر اّھے
بن لڑے جنگ ہر اک معرکہ سر ہو جائے
انکو بخشی ہے مرے رب نے کچھ ایسی قدرت
وہ اُدھر لب بھی ہلائیں تو اِدھر ہو جائے
جس کے آنگن میں ترا ذکر ہو وہ گھر جنت
تیری محفل ہو جہاں خلد نگر ہو جائے
جو تجھے نذر کرے شعر و خطابت اپنی
اسکا مقبول زمانے میں ہنر ہو جائے
مہدی باقر خان
نیمہ شعبان 1445
دہلی ہندوستان